۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
News ID: 367892
22 اپریل 2021 - 17:44
أم المؤمنین حضرت خدیجہ (س)

حوزہ/ ہمیں چاہیئے کہ ہم جناب خدیجہ کی شخصیت کو سمجھیں اور آپ کی معرفت پیدا کریں کہ آپ کتنی اہمیتوں کی حامل ہیں۔

تحریر: مولانا سید ظفر عباس رضوی قم المقدسہ

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آج اگر ہم اسلام پہ نظر ڈالیں تو پوری دنیا میں پھیلا ہوا نظر آتا ہے اور اس کے ماننے والے بھی پوری دنیا میں کافی تعداد میں نظر آتے ہیں، لیکن اگر ہم اسلام کی ابتدائی تاریخ کو پڑھیں اور اس پہ نظر ڈالیں تو ہم کو پتہ چلے گا کہ اسلام کی شروعات کتنی مشکل اور سخت تھی اگر ہم اس وقت کو دیکھیں کہ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم نے صدائے لا الہ الا اللہ بلند کی تو آپ کی کس طرح سے مخالفت ہوئی اور کتنی زیادہ آپ کو اذیت پہنچائیں گئیں ہر طرح کی اذیت دی گئی پتھر مارے گئے، راستہ میں کانٹے بچھائے گئے، جسم مبارک پہ کوڑے پھینکے گئے، ساحر اور جادو گر کہا گیا، جھٹلائے گئے جتنی زیادہ اذیتیں ہو سکتی تھیں دی گئیں اسی لئے تو خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  فرماتے ہیں:
"مَا أُوذِی نَبِی مِثْلَ مَا أُوذِیتُ"(کشف الغمة فی معرفة الائمہ ج 2 ص 537 ناشر- بنی ہاشم تبریز) "جتنی زیادہ اذیتیں مجھے دی  گئیں کسی اور نبی کو نہیں دی گئیں"
پیغمبر اکرم(ص) کے اس جملہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ رحمة للعالمين کو کتنا زیادہ ستایا گیا اور کتنی تکلیفیں پہنچائیں گئیں۔
پیغمبر اکرم(ص) کو تو اذیت و تکلیف پہنچائی ہی جاتی تھی ساتھ ہی ساتھ جو پیغمبر اکرم(ص) کی آواز پہ لبیک کہتے ہوئے مسلمان ہو جاتا تھا اس کا بھی حقہ پانی بند کر دیا جاتا تھا اور اسے بھی طرح طرح کی اذیتین اور تکلیفیں پہنچائی جاتی تھیں، اس وقت پیغمبر اکرم(ص) کے پاس نہ ہی اتنی طاقت تھی اور نہ ہی دولت کہ ان مخالفت کرنے والوں کا مقابلہ کر سکیں، تو آخر ایسے سخت حالات میں جناب ابو طالب اور مولائے کائنات کے علاوہ وہ کون تھا جس نے پیغمبر اکرم(ص) کی ہر لحاظ اور ہر اعتبار سے مدد کی چاہے وہ پیغمبر اکرم(ص) پہ ایمان لانے کی بات ہو یا پھر آپ کی تصدیق کا مسئلہ ہو یا مال و دولت و ثروت کی بات ہو، وہ شخصیت کوئی اور نہیں بلکہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی شخصیت تھی جنھوں نے ہر لحاظ سے پیغمبر اعظم(ص) کی مدد کی، جن کے لئے جناب ام سلمہ فرماتی ہیں:
"فَلَمَّا ذَكَرْنَا خَدِیجَةَ بَكَى رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وآله و سلم ثم قال خديجة  أَيْنَ  مِثْلُ خَدِيجَةَ صَدَّقَتْنِي حِينَ كَذَّبَنِي النَّاسُ‏ وَ وَازَرَتْنِي عَلَى دِينِ اللَّهِ وَ أَعَانَتْنِي عَلَيْهِ بِمَالِهَا إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَمَرَنِي أَنْ أُبَشِّرَ خَدِيجَةَ بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبِ الزُّمُرُّدِ لَا صَخَبَ فِيهِ وَ لَا نَصَب"(بحارالانوار ج 43 ص 132 ناشر-داراحیاء التراث العربی بیروت)
"جب بھی ہم خدیجہ کا ذکر کرتے تھے تو پیغمبر اکرم(ص) رونے لگتے تھے اور فرماتے تھے کہ  کیا کہنا خدیجہ کا خدیجہ جیسا کون ہے، خدیجہ نے میری تصدیق اس وقت کی جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے، دین خدا میں میری مدد کی اور میرے ساتھ رہیں، اور اپنے مال کے ذریعہ سے  خدا کے دین میں میری مدد کی، خدا وند عالم نے مجھے حکم  دیا ہے کہ میں خدیجہ کو جنت میں بہت ہی قیمتی پتھر والے ایک ایسے گھر کی خوشخبری دوں جس میں کوئی رنج و غم اور سختی نہ ہو"
 اب اس روایت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جناب خدیجہ پیغمبر اکرم(ص) کے لئے کتنی مددگار تھیں اور پیغمبر اکرم(ص) کس قدر جناب خدیجہ سے متاثر اور وابستہ تھے کہ جب بھی جناب خدیجہ کا ذکر سنتے تھے رونے لگتے تھے اور ان کی نصرت و مدد کو یاد کرنے لگتے تھے، 
یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ مرسل اعظم، سرور کائنات، رحمة للعالمین اس طریقہ سے کسی کو یاد کریں، 
ہر لحاظ سے جناب خدیجہ کی ذات گرامی الگ اور منفرد نظر آتی ہے، متعدد جگہوں پہ پیغمبر اکرم(ص) نے آپ کی فضیلت کو بیان فرمایا ہے،
آپ(ص) جناب خدیجہ کے ایمان کے سلسلہ سے فرماتے ہیں:
كَمُلَ مِن الرِّجالِ كثيرٌ و لم يَكمُلْ مِن النِّساءِ إلاّ أربَعٌ
 آسِيَةُ بِنتُ مُزاحِمٍ امرأةُ فِرعَون
 و مَريمُ بِنتُ عِمرانَ
 و خَديجَةُ بِنتُ خُوَيلِدٍ
و فاطِمَةُ بِنتُ مُحمّدٍ صلى الله عليه و آله"(تفسیر نور ثقلین ج 5 ص 377 ناشر- اسماعیلیان قم)
مردوں میں سے بہت سے لوگ  کمال تک پہنچے لیکن خواتین میں بس چار خاتون کمال تک پہونچ سکیں
1-آسیہ بنت مزاحم زوجہ فرعون
 2-مریم بنت عمران
 3- خدیجہ بنت خویلد
4- فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم"
 جناب خدیجہ کی فضیلت کے لئے یہی بات کافی ہے کہ آپ ایک کامل خاتون تھیں، 
اسی طریقہ سے آپ کی ایک اور  فضیلت اور خصوصیت کے سلسلہ سے پیغمبر اکرم(ص) فرماتے ہیں:
اِنَّ اَفْضَلَ نِساءِ اَهْلِ الْجَنَّةِ خَدیجَةُ بِنْتُ خُوَیْلِد وَ فاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّد
وَ مَرْیَمُ بِنْتُ عِمْرانَ وَ آسِیَةُ بِنْتُ مُزاحِم"(بحارالانوار ج 29 ص 345 ناشر- موسسة الوفاء بیروت)
"جنت کی سب سے افضل و برتر خواتین، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد(ص)، مریم بنت عمران، اور آسیہ بنت مزاحم ہیں"
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
"إِنَّ اللَّهَ تَعَالَی أَعْطَی عَشَرَهَ أَشْیَاءَ لِعَشَرَة مِنَ النِّسَاءِ: التَّوْبَة لِحَوَّاءَ زَوْجَة آدَمَ وَ الْجَمَالَ لِسَارَهَ زَوْجَة إِبْرَاهِیمَ وَ الْحِفَاظَ لِرَحْمَة زَوْجَة أَیُّوبَ وَ الْحُرْمَة لِآسِیَة زَوْجَة فِرْعَوْنَ وَ الْحِکْمَة لِزَلِیخَا زَوْجَة یُوسُفَ وَ الْعَقْلَ لِبِلْقِیسَ زَوْجَة سُلَیْمَانَ وَ الصَّبْرَ لبرخانة أُمِّ مُوسَی وَ الصَّفْوَة لِمَرْیَمَ أُمِّ عِیسَی وَ الرِّضَا لِخَدِیجَة زَوْجَة الْمُصْطَفَی وَ الْعِلْمَ لِفَاطِمَة زَوْجَة الْمُرْتَضَی" (بحارالانوار ج43 ص 34 ناشر- داراحیاءالتراث العربی بیروت)
خداوند عالم نے دس چیزیں دس خواتین کو عطا کی ہیں:
1- توبہ زوجہ آدم حواء کو
2- جمال زوجہ ابراہیم سارا کو
3- محافظت اور خودداری زوجہ ایوب رحمة کو
4- حرمت و احترام زوجہ فرعون آسیہ کو
5- حکمت زوجہ یوسف زلیخا کو
6- عقل زوجہ سلیمان بلقیس کو
7- صبر مادر موسی برخانہ کو
8- منتخب اور خالص ہونا مادر عیسی مریم کو
9- رضا و تسلیم زوجہ مصطفی خدیجہ کو
10- علم زوجہ مرتضی فاطمہ کو

اس حدیث میں امام علیہ السلام  فرماتے ہیں کہ خدا وند عالم نے رضا و تسلیم جناب خدیجہ کو عطا کیا ہے یعنی حضرت خدیجہ ہر حال میں راضی رہتی تھیں۔

امیر بیان امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
"ثلاثٌ مَن كُنَّ فيهِ فَقَد رُزِقَ خَيرَ الدُّنيا و الآخِرَةِ الرِّضا بالقَضاءِ، و الصّبرُ على البَلاءِ، و الشُّكْرُ في الرَّخاءِ"(تصنیف غررالحکم ودررالکلم ص 282 ناشر- دفتر تبلیغات قم)
"اگر کسی کے اندر تین چیزیں پائی جاتی ہیں تو گویا اس کو دنیا و آخرت کا خیر عطا کر دیا گیا ہے"
1- خدا کے فیصلوں پہ راضی و تسلیم رہنا
2- مصیبتوں پہ صبر کرنا
3- خوشحالی اور آسودگی میں شکر کرنا
اگر ہم جناب خدیجہ کی زندگی کو دیکھیں تو یہ تینوں چیزیں آپ کی زندگی میں پائی جاتی ہیں آپ ہمیشہ خدا کے فیصلوں پہ راضی رہتی تھیں جیسا کہ خود امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا نے آپ کو رضا و تسلیم عطا کیا، اسی طرح مصیبت میں آپ نے صبر کیا ہر سخت اور کٹھن مشکل میں پیغمبر اعظم(ص) کے ساتھ رہیں شعب ابو طالب علیہ السلام کی سختیوں کو برداشت کیا، اپنی پوری دولت و ثروت کو شکرانہ کے طور پہ راہ اسلام میں لٹا دیا۔
ویسے تو پیغمبر اکرم(ص) کی بہت سی بیبیاں تھیں لیکن آپ کو خدا نے ایک خاص فضیلت عطا کی تھی جو کسی اور کو نہیں عطا کی تھی، اس لئے کہ جب ہم آپ(ص) کی ازواج کو سلام کرتے ہیں تو کہتے ہیں: 
"السلام علی ازواجك الطاهرات الخيرات، امهات المومنين، خصوصا الصديقة الطاهرة، الزكية الراضية المرضية، خديجة الكبري ام المومنين"(بحارالانوار ج 97 ص 189 ناشر-داراحیاء التراث العربی بیروت)
"آپ کی پاکیزہ اور نیک ازواج پہ سلام جو مومنین کی مائیں ہیں، خاص طور سے صدیقہ طاہرہ، زکیہ، راضیہ، مرضیہ ام المومنین خدیجہ کبری کے اوپر"
اس سے بھی جناب خدیجہ کی عظمت سمجھی جا سکتی ہے کہ آپ کے اوپر خصوصی سلام بھیجا جا رہا ہے،
ایک دوسری جگہ پہ جناب خدیجہ کے اوپر اس طرح سے سلام آیا ہے:
"السلام علی خديجة سيدة نساء العالمين"(بحارالانوار ج 102 ص 272 ناشر- موسسة الوفاء بیروت)
"سلام ہو خدیجہ پر جو عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں"
اسی طریقہ سے ملتا ہے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے نطفہ کے  ٹھہرنے سے پہلے پیغمبر اکرم(ص) حکم خدا سے چالیس دن حضرت خدیجہ سے دور رہے تو ایک دن آپ نے جناب عمار کو جناب خدیجہ کے پاس بھیجا اور پیغام کہلوایا:   
"امرني بذلک لينفذ امره، فلا تظني يا خديجة الا خيرا، فان الله عز و جل ليباهي بک کرام ملائکته کل يوم مرارا"(بحارالانوار ج 16 ص 78ناشر-داراحیاء التراث العربی بیروت)
"خدا وند عالم نے مجھے ایسا کرنے کے لئے حکم دیا ہے تاکہ میں اس کا حکم بجا لاؤں اے خدیجہ اس سلسلہ سے تم صرف خیر سوچنا اس لئے کہ خدا ہر روز چند بار تمہارے سلسلہ سے اپنے ملائکہ کرام سے فخر و مباہات کرتا ہے"
 یہ چیز کم نہیں ہے کہ خدا ہر روز چند بار اپنے ملائکہ مقرب سے جناب خدیجہ کے سلسلہ سے فخرو مباہات کرتا ہے،
ابو سعید خدری کا بیان ہے کہ جب پیغمبر اکرم(ص) معراج پہ گئے تو آپ فرماتے ہیں:
"إنَّ جَبْرَئیلَ أتانی لَیْلَةً اُسری بی فَحینَ رَجَعْتُ قُلْتُ یا جَبْرَئیلُ هَلْ لَکَ مِنْ حاجَةِ قالَ حاجَتی أنْ تَقْرَءَ عَلی خَدیجَةَ مِنَ اللهِ وَمِنِّی السّلامَ وَحَدَّثَنا عِنْدَ ذلِکَ أنَّها قالَتْ حینَ لَقِیَها نَبیُّ الله فَقال لها الَّذی قالَ جَبْرَئیلُ فقالَتْ إنَّ الله هُوَ السَّلامُ وَ مِنْهُ السَّلامُ وَإلَیْهِ السَّلامُ وَعَلَی جَبْرَئیلَ السَّلام"(بحارالانوار ج 18 ص 385 ناشر-داراحیاءالتراث العربی بیروت)
"جب جبرئیل مجھے آسمان کی طرف لے گئے پھر جب میں پلٹ رہا تھا تو جبرئیل سے میں نے کہا کہ جبرئیل تمہاری کوئی حاجت ہے؟ جبرئیل نے کہا میری حاجت یہ ہے کہ آپ خدا کی طرف سے اور میری طرف سے خدیجہ کو سلام کہہ دیجئیے گا جب پیغمبر اکرم(ص) واپس آئے تو خدیجہ کو خدا اور جبرئیل کا سلام پہنچایا خدیجہ کہتی ہیں خدا مرکز سلامتی ہے اور اسی سے سلامتی ہے اور اسی کی طرف سلامتی پلٹتی ہے اور جبرئیل کے اوپر بھی سلام ہو"۔
امام حسین علیہ السلام نے بھی کربلا کے میدان میں اپنا تعارف جناب خدیجہ سے کروایا ہے آپ فرماتے ہیں:
 "اُنْشِدُكُمُ اللّهَ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ جَدَّتي خَديجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِد أَوَّلُ نِساءِ هذِهِ الاُْمَّةِ إِسْلاماً"*(امالی صدوق ص 158 ناشر- کتابچی تہران)
"میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ میری نانی خدیجہ بنت خویلد ہیں جو اسلام لانے والی پہلی خاتون ہیں"
ان ساری چیزوں کو پڑھنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ واقعا کتنی عظمت و فضیلت ہے جناب خدیجہ کی، کتنی اہمیتوں کی حامل ہیں آپ، خدا کے نزدیک کتنی قدرو منزلت ہے آپ کی۔
ان ساری فضیلتوں کے باوجود خدا نے  ایک خاص فضیلت آپ کو عطا کی  ہے اور وہ یہ کہ آپ خاتون جنت، خاتون محشر، صدیقہ طاہرہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی ماں ہیں، جو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی ماں ہوگا اس کی عظمتوں کا کیا کہنا، صرف یہی ایک فضیلت حضرت خدیجہ کی عظمت کے لئے کافی ہے۔
لیکن ان ساری چیزوں کے باوجود بھی اگر یہ کہا جائے کہ تاریخ اسلام نے آپ کو اس طرح سے پیش نہیں کیا جس طرح سے پیش کرنا چاہیئے تھا، آپ کے حق میں کوتاہی کی گئ تو شاید یہ بات غلط نہ ہو۔ 
اور اگر آپ کی ایثار و فداکاری، آپ کا خلوص، آپ کی دولت و ثروت، پیغمبر اکرم(ص) کے سلسلہ سے آپ کی ہمدردی اور نصرت و مدد اسلام سے نکال لیا جائے تو پھر بچتا ہی کیا ہے،
پورا عالم اسلام آپ کا رہین منت ہے، چاہے کوئی اقرار کرے یا نہ کرے۔
لہذا ہمیں چاہیئے کہ ہم جناب خدیجہ کی شخصیت کو سمجھیں اور آپ کی معرفت پیدا کریں کہ آپ کتنی اہمیتوں کی حامل ہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .